خسروی اچھی لگی نہ سروری اچھی لگی
ہم فقیروں کو مدینے کی گلی اچھی لگی
دور تھے تو زندگی بے رنگ تھی بے کیف تھی
ان کے کوچے میں گئے تو زندگی اچھی لگی
ہم نہ جائیں گے کہیں بھی در نبی کا چھوڑ کر
ہم کو کوئے مصطفے کی چاکری اچھی لگی
ناز کرتو اے حلیمہ سرور کونین پر
گرلگی اچھی تو تیری جھونپڑی اچھی لگی
رکھ دیا سرکار کے قدموں پہ سلطانوں نے سر
گر لگی اچھی تو تیری چاکری اچھی لگی
آج محفل میں نیازی نعت جو میں نے پڑھی
عاشقان مصطفے کو وہ بڑی اچھی لگی
خسروی اچھی لگی نہ سروری اچھی لگی
ہم فقیروں کو مدینے کی گلی اچھی لگی