Pichtawa – پچھتاوا
مما وہ پینڈو سا ہے میں نے اس سے شادی نہیں کرنی
افشاں اپنی ماں سے کہہ رہی تھی۔ ماں نے پیار سے کہا بیٹی وہ تمہارا کزن ہے اچھا لڑکا ہے کیوں شادی نہیں کرنی اس سے, افشاں نے کہا مما وہ پینڈو سا ہے نہ اسے کپڑے پہننے کی تمیز اور نہ بات کرنے کی تمیز، میں اس کے ساتھ شادی نہیں کروں گی۔
ماں نے کہا افشاں شادی تو کرنی پڑے گی تم راضی ہو یا نا ہو۔ افشاں نے اپنے کزن صارم کو کال کی اور کہا کہ صارم میں تم سے شادی نہیں کرنا چاہتی، پلیز تم شادی سے انکار کر دو۔ صارم نے کہا میں اپنے ماں باپ کی مرضی کے خلاف نہی جا سکتا، افشاں پھر بولی میں تمہارے ساتھ زندگی بھر نہیں رہ سکتی۔ صارم نے کہا تم خود انکار کر دو، میں تو کچھ نہیں کہنے والا۔
افشاں نے جب دیکھا اس کی شادی صارم سے ہی کر رہےہیں تو اس نے خودکشی کرنے کے لیئے گھر میں پڑی میڈیسن کی کافی ساری ٹیبلٹ کھا لیں، جس کے بعد اسے ہسپتال لے گئے۔ ڈاکٹرز نے معدہ واش کیا اور اس کی جان بچ گئی۔
افشاں نے اپنی ماں کے سامنے ہاتھ جوڑے مما مجھ پہ رحم کرو
میں اس جاہل انسان کے ساتھ بلکل نہیں رہ سکتی، وہ بھی گاوں میں، ماں نے کہا بیٹی سوچ لو ہم سب جانتے ہیں، صارم بہت اچھا لڑکا ہے، کیا ہوا وہ اتنا پڑھا لکھا نہیں ہے تو، وہ گاوں میں رہتا ضرور ہے، لیکن وہ لڑکا بہت عقل مند اور اچھا ہے۔
آخر کار افشاں کے نہ چاہتے ہوئے بھی، اس کی شادی صارم سے کروا دی گئی، افشاں نے بس سمجھ لیا کہ اُس کی زندگی برباد ہو گئی، سارے خواب ختم ہو گئے، سب خوشیاں جلا دی گئ ہیں، افشاں کا سب کچھ ایک جاہل انسان کے حوالے ہو گیا۔
آج پہلی رات تھی افشاں نے صارم کو کہا، صارم تم مجھ سے شادی کرنا چاہتے تھے نا، لو ہو گئی ہماری شادی، لیکن تم مجھ سے دور رہو، صارم مسکراتے ہوئے کہنے لگا ٹھیک ہے افشاں آپ اتنا غصہ کیوں کر رہی ہیں، افشاں نے کہا تم نے میری زندگی تباہ کر دی صارم۔ اتنے میں صارم نے ایک ڈبیہ کھولی اس میں چمکتی ہوئی انگھوٹی تھی، صارم نے وہ ڈبیہ افشاں کے سامنے رکھی اور کہنے لگا افشاں یہ گفٹ آپ کے لیئے افشاں نے انگھوٹی اٹھا کر سائڈ پر رکھ دی اور کروٹ بدل کر لیٹ گئ اور زور زور سے رونے لگی۔
اس کے بعد صارم وہاں سے اُٹھا اور نوافل ادا کرنے لگا، اس کے بعد پھر افشاں کے پاس آکر لیٹ گیا، یوں صارم اور افشاں کی زندگی کا سفر شروع ہوا۔
صارم کے ساتھ رہ کر افشاں کا دم گھٹنے لگا تھا، صارم دیکھنے میں تو خوبصورت تھا بس زیادہ پڑھا لکھا نہیں تھا، اور شہری لڑکوں کی طرح ڈیسینٹ سا بھی نہیں تھا جبکہ افشاں ایک ماڈرن سی لڑکی تھی۔
پھر زندگی کے دن گزرنے لگےروزانہ صارم صبح اٹھتے ہی افشاں کا ماتھا چومتا، پھر خود ناشتہ بناتا، لیکن یہ دیکھ کر افشاں کو غصہ آتا کہ یہ بندہ مجھے امپریس کرنے کے چکروں میں ہے، افشاں جب صارم کے ہاتھ کا بنا کھانا کھاتی تو بہت حیران ہوتی اتنا مزے کا کھانا۔
صارم رات کو کام سے تھکا ہارا آتا، لیکن افشاں بس خاموشی سے اپنی دنیا میں ہی گم سی رہتی۔ افشاں کو صارم کی کو کوئی پرواہ نہیں تھی۔
صارم بھی افشاں کو کچھ نہیں کہتا تھا، گھر آ کر کھانا بناتا خود بھی کھاتا اور افشاں کو بھی کھانا دیتا۔ لیکن افشاں پتھر دل تھی شاید، وہ نہ تو گھر کی کوئی صفائی کرتی تھی اور نہ ہی وہ کبھی صارم کے کپڑے وغیرہ دھویا کرتی تھی۔ صارم اپنے تمام کام خود کیا کرتا تھا، اسی طرح پورا سال گزر گیا۔
صارم، افشاں کی ہر بات اور بے رخی کو چوم کر برداشت کر لیتا تھا، افشاں کو یوں لگتا تھا جیسے کوئی بدو اور پاگل انسان اس کے پلے پڑ گیا ہو۔ صارم چونکہ ایک مرد تھا وہ عورت پہ ہاتھ اٹھانا یا سختی کرنا مرد کی شان کے خلاف سمجھتا تھا۔ پھر اس پہ ہاتھ اٹھانا یا سختی کرنا جو آپ کا ہمسفر ہو، اس نے ایسا بلکل نہیں کیا۔
آخر کار صارم نے ایک دن افشاں کو کہا کہ تم اپنا خیال کیوں نہیں رکھتی پاگل، دیکھو تو رنگ کتنا دھیما پڑ گیا ہے تمہارا، اور تمہارے بال بھی کتنے روکھے سے ہو گئے ہیں، صارم افشاں کے پاس بیٹھ گیا ایک سال کے بعد صارم نے یوں افشاں کو چھوا تھا۔ وہ افشاں کے بالوں میں آئل لگانے لگا، لیکن افشاں نے کہا چھوڑ دو مجھے صارم، لیکن صارم نے کہا نہیں چھوڑوں گا، افشاں نے دھکا دیا اور آئل صارم کے اوپر گر گیا۔
افشاں جیسے ہی وہاں سے اٹھ کر جانے لگی تو صارم نے اُس کا بازو پکڑکر زبردستی اپنے پاس بیٹھا لیا اور مسکراتے ہوئے کہنے لگا، دیکھو افشاں میں آپ کو یوں نہیں دیکھ سکتا، افشاں نے کہا میرا بازو چھوڑو صارم مجھے درد ہو رہا ہے، اور صارم نے افشاں کو اپنے پاس بٹھایا اور افشاں کے سر میں آئل لگانا شروع کیا، پھر افشاں کے چہرے پر سکرب کرنے لگا، افشاں خاموشی سے بیٹھی ہوئی تھی۔ صارم نے مسکراتے ہوئے کہا چڑیل جاو اب شاور لے کر آو اور پنک ڈریس پہنو، میں تمہاری فیورٹ بریانی تیار کرتا ہوں۔
افشاں حیران تھی کہ اس کی اتنی بے رخی پر بھی صارم اُس سے اتنا پیار کرتا ہے۔ افشاں شاور لے کر آئی آج چہرے پہ عجیب سی چمک تھی، افشاں نے اپنی دوست کو کال کی یار صارم نے ایسے کیا میرے ساتھ، اس کی دوست نے کہا صارم اچھا انسان ہے اس کی قدر کرو۔ مگر افشاں نے کہا وہ مجھے امپریس کر رہا ہے۔ مگر اس کی دوست نے افشاں کو سمجھاتے ہوئے کہا کہ قمست والوں کو ایسا مرد یا ہمسفر ملتا ہے۔
اتنے میں صارم نے آواز لگائی جاں پناہ کھانا تیار ہے، جلدی سے آ جاو۔ افشاں مسکرانے لگی، آج بریانی سے بہت مزے کی خوشبو آ رہی تھی، افشاں نے کھانا شروع کیا اتنے مزے کی بریانی اس کا دل چاہا کہ صارم کی تعریف کرے لیکن خاموش رہی کھانا کھایا اور کمرے میں سونے چلی گئی۔
صارم نے برتن اٹھائے اور واش کرنے لگا، سارا دن کا تھکا ہارا بیڈ پہ پڑا سو گیا۔ صبح ہوئی تو افشاں کو اُٹھایا کہا افشاں میری جان ناشتہ تیار کر دیا ہے کر لینا میں جا رہا ہوں اور ہاں آج تمہارے لیے گفٹ لے کر آوں گا۔
شام کو صارم گھر آیا، ہاتھ میں ایک گلاب کا پھول تھا افشاں صحن میں کرسی پر بیٹھی ہوئی تھی اور ہلکی ہلکی سی ہوا چل رہی تھی، صارم آیا اور افشاں کے سامنے گھٹنے کے بل بیٹھ گیا گلاب کا پھول افشاں کو دیا اور مسکراتے ہوئے کہنے لگا ہیپی برتھ ڈے افشاں۔
افشاں نے کہا تم کو کیسے یاد ہے میرا آج برتھ ڈے ہے، صارم نے کہا ہمسفر ہوں آپ کا، یہ کہتے ہوئے صارم نے ایک لفافے سے پیپرز نکالے اور افشاں کا ہاتھ پکڑ کر کہنے لگا افشاں جانتی ہو یہ پیپرز کس چیز کے ہیں، افشاں کا دل دھڑکنے لگا۔
کیا ہے یہ صارم، اتنے میں صارم بولا اس میں ہم دونوں کی خوشیاں ہیں افشاں۔ لیکن وہ حیرانگی میں بولی، بتاو صارم یہ کیا ہے، صارم نے پیار بھرے لہجے میں کہا یہ ہمارے نئے گھر کے پیپرز ہیں، صارم بولا کہ میں نےگھر خریدا ہے اور وہ تمہارے نام کیا ہے، افشاں کو یقیں نہیں ہو رہا تھا۔
افشاں بولی نیا گھر وہ بھی میرے نام، افشاں کرسی پر بیٹھ گئی، اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے تھے، اور کہنی لگی صارم اتنی محبت، صارم کی آنکھ سے بھی پہلی بار آنسو چھلکا تھا، صارم نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا، افشاں تم سے ایک چیز مانگوں، افشاں نے نہ چاہتے ہوئے بھی ہاں میں سر ہلا دیا، صارم بولا افشاں ہمیشہ خوش رہا کرو، جانتی ہو تم پری جیسی ہو، معصوم سی، بہت پیاری ہو تم، میں بہت خوش نصیب ہوں کہ مجھے تم جیسی ہمسفر ملی۔
صارم بولا افشاں ہماری شادی کو پورا سال گزر گیا ہے لیکن ہم نے کبھی ایک دوسرے کو سینے سے نہیں لگایا، مجھے آج سینے سے لگا لو نا، ایک بار پھر افشاں نے نہ چاہتے ہوئے، شادی کے بعد پہلی بار صارم کو اپنے سینے سے لگا لیا۔ صارم زور سے افشاں کے سینے سے لگا اور روتے ہوئے کہنے لگا، کیا پتہ یہ بانہیں پھر نصیب ہوں نہ ہوں، اتنا کہہ کر صارم کمرے میں چلا گیا۔
افشاں کو سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کیا کرے، وہ صارم کو کیا سمجھتی رہی اور صارم کتنا اچھا انسان ہے۔ وہ دل ہی دل میں بولی میں نے کتنا برا سلوک کیا تمھارے ساتھ صارم۔
افشاں کا دل چاہ رہا تھا کہ صارم کی بانہوں میں سما جائے، وہ صارم کی بے پناہ محبت کو پورا سال اگنور کرتی رہی مگر پھر بھی صارم اُس کو چاہتا رہا۔ رات بھر افشاں خواب دیکھتی رہی کل صبح صارم کے لیئے وہ خود ناشتہ بنائے گی۔ دل ہی دل میں سوچ رہی تھی کہ صارم کو اب دنیا کی ہر خوشی دوں گی، صارم کو اب کبھی اداس نہیں ہونے دوں گی۔
رات بیت گئی افشاں اٹھی ناشتہ تیار کیا بہت خوش تھی شاور لیا اور صارم کے اٹھنے کا انتظار کرنے لگی۔ کافی ٹائم گزر گیا، لیکن صارم نہ اُٹھا افشاں کمرے میں گئی اور محبت سے آواز دینے لگی صارم اُٹھ جائیں نا، میں نے آج آپ کے لیے ناشتہ تیار کیا ہے۔
صارم کروٹ لے کر سویا ہوا تھا، افشاں نے محبت سے صارم کو چھوا تو کیا دیکھتی ہے کہ صارم کا جسم تو ٹھنڈا پڑ چکا ہے۔ افشاں نے آگے بڑھ کر دیکھا تو صارم کے بستر پرخون پڑا ہوا تھا، اور صارم کے منہ پر بھی خون لگا ہوا تھا۔
افشاں چیخنے لگی، زور زور کر آوازیں دینے لگی صارم اُٹھ جاو یہ کیا ہوا آپ کو، صارم اٹھو نا، اتنے میں شور کی آوازیں سن کر محلے والے اکھٹے ہو گئے، وہ صارم کو اُٹھا کر ہسپتال لے گئے۔ ڈاکٹر نے صارم کو چیک کیا، اور بولنے لگا میں نےصارم کو کہا بھی تھا کہ اپنا خیال رکھو، اپنا علاج کرواو، کسی کو اپنے ساتھ لیکر آو، لیکن شاید یہ جینا ہی نہیں چاہتا تھا۔
افشاں نے روتے ہوئے ڈاکٹر سے پوچھا کہ کیا تھا صارم کو، یہ سن کر ڈاکٹر نے ایک سرد آہ بھری اور کہنے لگا صارم کو پچھلے 6 مہینے سے بلڈ کینسر تھا۔
ڈاکٹر بولا، شاید صارم کا خیال رکھنے والا کوئی نہیں تھا یہ مجھے اکثر کہتا تھا کہ ڈاکٹر صاحب میں کس کے لیئے زندہ رہوں، کوئی ہے ہی نہیں میرا جو مجھے اپنا کہہ سکے۔ میرے گھر میرا انتظار کرنے والا کوئی نہیں ہے، اور نہ ہی کوئی مجھ سے محبت سے پوچھنے والا ہے کہ دن کیسا گزرا، کوئی نہیں ہے جو مجھے کہے آپ تھک گئے ہیں چلو سر دبا دوں۔ ساری ساری رات میں کمرےمیں اکیلا درد سے تڑپتا ہوں لیکن کوئی نہیں ہے جو میرا درد سمجھے۔
یہ سب سن کر افشاں زمین پر گر گئی اور کہنے لگی صارم یہ کیا کر دیا میں نے، صارم مجھے معاف کر دو، صارم میں پاگل ہو گئی تھی۔ صارم نہ جاو مجھے چھوڑ کر، صارم میں تمھارے بنا مر جاوں گی، صارم کی لاش سامنے پڑی تھی، جو زندگی میں شاید افشاں کی محبت کو ترستا رہا۔
اب وہ ہی افشاں صارم کے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں لیئے چیخ چیخ کر رو رہی تھی لیکن شاید کے اب محبت کا وقت ختم ہو چکا تھا۔ صارم ہمیشہ کے لیئے آزاد کر گیا تھا افشاں کو۔
سبق: لکھنے والا بس اتنا کہنا چاہتا ہے کہ کسی کے جذبات سے مت کھیلو، کسی کو اتنا نہ ستاو کے وہ مر جائے، اپنے ہمسفر کو سینے سے لگاو، جھگڑنے اور گالم گلوچ کی بجائے ایک دوسرے کو چوم لو۔ خدارا، اپنی انا میں محبت کے لمحوں کو نہ جلا دینا، چھوٹی سی زندگی ہے نہ جانے کب بچھڑ جائیں، پتہ نہیں کب کس کو موت آ گھیرے، ہمیشہ محبت بانٹتے رہو۔
غرض: کسی کے مرنے کے بعد پچھتاوے سے اچھا ہے اس کی زندگی میں قدر کے جائے۔
