“یہ میری ماں ہے”
پچھلی کلاسوں میں بھی اس نے یقیناً یہی گل کھلائے ہونگے، “انہوں نے سوچا اور کلاس 3 کی رپورٹس کھولی” رپورٹ میں ریمارکس پڑھ کر ان کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی جب انہوں نے دیکھا کہ رپورٹ اس کی تعریفوں سے بھری پڑی ہے، طارق جیسا ذہین بچہ میں نے آج تک نہیں دیکھا، انتہائی حساس بچہ ہے اور اپنے دوستوں اور ٹیچر سے بے حد لگاو رکھتا ہے۔
آخری سمسٹر میں بھی طارق نے پہلی پوزیشن حاصل کرلی ہے، مس عائشہ نے غیر یقینی کی حالت میں کلاس 4 کی رپورٹ کھولی، طارق نے اپنی ماں کی بیماری کا بے حد اثر لیا ہے، اس کی توجہ پڑھائی سے ہٹ رہی ہے، طارق کی ماں کو آخری اسٹیج کا کینسر تشخیص ہوا ہے، گھر پر اُن کا کوئی خیال رکھنے والا نہیں جس کا گہرا اثر اس کی پڑھائی پر پڑا ہے۔
طارق کی ماں مرچکی ہے اور اس کے ساتھ ہی طارق کی زندگی کی رمق بھی۔۔۔ اسے بچانہ پڑے گا اس سے پہلے کے بہت دیر ہوجائے، مس عائشہ پر لرزہ طاری ہو گیا۔ کانپتے ہاتھوں سے انہوں نے پروگریس رپورٹ بند کی۔ آنسو ان کی آنکھوں سے ایک کے بعد ایک گرنے لگے۔ اگلے دن جب مس عائشہ کلاس میں داخل ہوئیں تو انہوں نے اپنی عادت مستمرہ کے مطابق اپنا روایتی جملہ “آئی لویو آل” دہرایا۔ مگر وہ جانتی تھیں کہ وہ آج بھی جھوٹ بول رہی ہیں۔ کیونکہ اسی کلاس میں بیٹھے ایک بے ترتیب بالوں والے بچے طارق کے لئے جو محبت وہ آج اپنے دل میں محسوس کررہی تھیں وہ کلاس میں بیٹھے اور کسی بچے کے لئے ہو ہی نہیں سکتی تھی۔ لیکچر کے دوران انہوں نے حسب معمول ایک سوال طارق پرداغا اور ہمیشہ ہی کی طرح طارق نے سر جھکا لیا۔ جب کچھ دیر تک مس عائشہ کی طرف سے کوئی ڈانٹ پھٹکار اور ہم جماعت ساتھیوں کی جانب سے ہنسی کی آواز اس کے کانوں میں نہ پڑی تو اس نے اچھنبے میں سر اُٹھا کر ان کی طرف دیکھا۔ خلاف توقع ان کے ماتھے پر آج بل نہ تھے، وہ مسکرا رہی تھیں۔ انہوں نے طارق کو اپنے پاس بلوایا اور اسے سوال کا جواب بتا کر زبردستی دہرانے کے لئے کہا۔
طارق تین چار دفعہ کے اصرار کے بعد آخر بول ہی پڑا۔ اس کے جواب دیتے ہی مس عائشہ نے نہ صرف خود پر جوش انداز میں تالیاں بجائیں بلکہ باقی سب سے بھی بجوائیں۔ پھر تو یہ روز کا معمول بن گیا مس عائشہ ہر سوال کا جواب اسے خود بتاتیں اور پھر اس کی خوب پذیرائی کرتیں۔ ہر اچھی مثال طارق سے منسوب کی جانے لگی۔ رفتہ رفتہ پرانا طارق سکوت قبر پھاڑ کر با ہر آگیا۔ اب مس عائشہ کو سوال کے ساتھ جواب بتانے کی ضرورت نہ پڑتی۔ وہ روز بلا نقص جوابات دے کرسب کومتاثر کرتا اور نئے نئے سوالات پوچھ کر سب کو حیران بھی۔ اس کے بال اب کسی حد تک سنورے ہوئے ہوتے، کپڑے بھی کافی حد تک صاف ہوتےجنہیں شاید وہ خود دھونے لگا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے سال ختم ہوگیا اور طارق نے دوسری پوزیشن حاصل کرلی۔ الوداعی تقریب میں سب بچے مس عائشہ کے لئے خوبصورت تحفے تحائف لے کر آئے اور مس عائشہ کے ٹیبل پر ڈھیر کرنے لگے۔ ان خوبصورتی سے پیک ہوئے تحائف میں ایک پرانے اخبار میں بد سلیقہ طرز پر پیک ہوا ایک تحفہ بھی پڑا تھا۔ بچے اسے دیکھ کر ہنس پڑے، کسی کو جاننے میں دیر نہ لگی کہ تحفے کے نام پر یہ چیز طارق لایا ہوگا۔ مس عائشہ نے تحائف کے اس چھوٹے سے پہاڑ میں سے لپک کر اسے نکالا۔ کھول کر دیکھا تو اس کے اندر ایک لیڈیز پرفیوم کی آدھی استعمال شُدہ شیشی اور ایک ہاتھ میں پہننے والا ایک بوسیدہ سا کڑا تھا جس کے زیادہ تر موتی جھڑ چکے تھے۔ مس عائشہ نے خاموشی کے ساتھ اس پرفیوم کو خود پر چھڑکا اور ہاتھ میں کڑاپہن لیا۔بچے یہ منظردیکھ کر حیران رہ گئے۔ خود طارق بھی، آخر طارق سے رہا نہ گیا اور مس عائشہ کے قریب آکر کھڑا ہوگا، کچھ دیر بعد اس نے اٹک اٹک کرمس عائشہ کو بتایا کہ “آج آپ سے بلکل میری ماں جیسی خوشبوآرہی ہے”
وقت پر لگا کر اُڑنے لگا، دن ہفتوں، ہفتے مہینوں اورمہینے سال میں بدلتے بھلا کہا دیر لگتی ہے؟ مگر ہر سال کے اختتام پرمس عائشہ کو طارق کے طرف سے ایک خط باقاعدگی کے ساتھ موصول ہوتا جس میں لکھا ہوتاکہ”میں اس سال بہت سارے نئے ٹیچرز سے ملا۔۔۔ مگر آپ جیسا کونہیں تھا” پھر طارق کا اسکول ختم ہوگیا اور خطوط کا سلسلہ بھی، کئ سال مزیدگزرے اور مس عائشہ ریٹائر ہوگئیں۔ ایک دن انہیں اپنی ڈاک میں طارق کا خط ملا جس میں لکھا تھا،
اس مہینے کے آخرمیں میری شادی ہے اور میں آپ کی موجودگی کے سوا شادی کا نہیں سوچ سکتا، ایک اور بات میں زندگی میں بہت سارے لوگوں سے مل چکا ہو۔۔۔ آپ جیسا کو ئی نہیں ہے، “فقط ڈاکٹر طارق”
ساتھ ہی جہاز کا ریٹرن ٹکٹ بھی لفافے میں موجود تھا، مس عائشہ خود کو ہرگز نہ روک سکتی تھیں، انہوں نے اپنے شوہر سے اجازت لی اور وہ دوسرے شہر کے لئے روانہ ہوگئیں۔ عین شادی کے دن جب وہ شادی کی جگہ پہنچیں تو تھوڑی لیٹ ہو چکی تھیں۔ انہیں لگا تقریب ختم ہو چکی ہوگی۔ مگر دیکھ کر ان کی حیرت کی انتہا نہ رہی کہ شہر کے بڑے بڑے ڈاکٹر، بزنس میں اور یہاں تک کہ وہاں موجود نکاح خواں بھی اکتایا ہوا کھڑا تھامگر طارق تقریب کی ادائیگی کے بجائے گیٹ کی طرف ٹکٹکی لگائے ان کی آمد کا منتظر تھا۔ پھر سب نے دیکھا کہ جیسے ہی یہ بوڑھی ٹیچر گیٹ سے داخل ہوئیں طارق ان کی طرف لپکا اور ان کا ہاتھ پکڑا جس میں انہوں نے اب تک وہ بوسیدہ سا کڑا پہنا ہوا اور انہیں سیدھا اسٹیج پر لے گیا۔ مائیک ہاتھ میں پکڑ کر اس نے کچھ یوں اعلان کیا “دوستو آپ سب ہمیشہ مجھ سے میری ماں کے بارے میں پوچھا کرتے تھے اور میں نے سب سے وعدہ کیا تھا کہ جلد آپ سب کو ان سے ملواونگا، “یہ میری ماں ہیں“
